جمہوریت کا فریبی علمبردار

از:ڈاکٹر ایم اجمل فاروقی‏، ۱۵/ گاندھی روڈ، دہرہ دون

 

”اپنی حالیہ نشری تقریر میں بش اور وزیر دفاع رمسفیلڈ نے اعتراف کیا کہ ہم پروپیگنڈہ کی جنگ ہاررہے ہیں کیونکہ وہ پروپیگنڈہ کی تکنالوجی میں ہم سے آگے ہیں۔ ہم اسلامی دنیا میں ذہن جیتنے کی جنگ ہار رہے ہیں“ یہ اعتراف حقیقت بھی دراصل حقیقت کو جھٹلانے کے مترادف ہے۔ بش کے مخالف تکنیک کی وجہ سے نہیں جیت رہے ہیں بلکہ بش اینڈ کمپنی کے خلاف ان کا کیس اتنا مضبوط ہے کہ اسے جھٹلانا مشکل ہے۔ اور مغرب اپنی چالبازیوں، اکڑ، گھمنڈ کے چلتے دن رات ایسا طرز عمل اپنارہا ہے کہ صرف مسلم دنیا ہی نہیں انصاف پسند غیرمسلم دنیا جس میں عیسائی بھی شامل ہیں امریکہ اور اس کے چاپلوسوں کے خلاف ہوتی جارہی ہے۔ گذشتہ دسمبر میں امریکی اداروں اور بی بی سی کے رائے عامہ کے بین الاقوامی جائزوں سے ثابت ہوا کہ بش اور ان کی سرکار اس وقت دنیا میں سب سے ناپسندیدہ سرکار اور صدر ہے۔ صرف فلپائن، بھارت اور انڈونیشیا میں عوام کی کثرت ان کوپسند کرتی ہے۔ ورنہ اکثر یوروپی ممالک میں بھی اِن سے نفرت کا فیصد مسلم ممالک سے بڑھا ہوا ہے۔ بعض یوروپی ممالک میں یہ شرح ٪۸۲ پائی گئی ہے۔

امریکہ نے دنیا میں اور خصوصاً مسلم دنیا میں بزعم خود جو اصلاح کا بیڑہ اٹھایا ہے اس ایجنڈہ میں سب سے اوپر جمہوریت کا قیام بتایا جارہا ہے خصوصاً مشرق وسطیٰ اور عرب ممالک میں اس ایجنڈہ پر خصوصی توجہ دی جارہی ہے۔ یہ الگ بحث ہے کہ اس مہم کا ایک مقصد عرب شاہوں اور ڈکٹیٹروں کو عوام سے ڈراکر رکھنا بھی ہے یا نہیں؟ امریکہ کی ”جمہوریت نوازی“ کی تازہ مثالوں کو سامنے رکھ کر اُس ڈھول کا پول کھولنے کی کوشش آگے کررہا ہوں۔ تاکہ دنیا سمجھ سکے کہ ان گِدھوں کی نظریں کہیں ہیں اور نشانہ کہیں اور ہے۔ افغانستان، عراق، مصر، فلسطین، وینزویلا، اسپین، یوکرین، ایران وغیرہ چند اہم ممالک ہیں جہاں حال ہی میں انتخابات ہوئے ہیں۔ مگر جن ممالک میں امریکہ کا حمایتی ٹولہ پوری امریکی مدد سے جیت گیا اسے تو منظوری مل گئی جہاں ایسا نہیں ہوا ان کے خلاف خفیہ اور اعلانیہ شازشیں اور دھمکیاں جاری ہیں۔ اگر جمہوریت کا مطلب ہوتا ہے ”عوام کی حکومت عوام کے ذریعہ، عوام کے لئے“ تو امریکی رویہ اس کے بالکل برعکس ہے۔ افغانستان، عراق اور مصر میں عوام کے بڑے طبقہ نے انتخابات کا بائیکاٹ کیا، بہت کم لوگوں نے ووٹ ڈالے۔ مصر میں زبردست طریقہ سے دھاندلی ہوئی۔ پھر بھی امریکہ نواز کٹھ پتلیوں کو ”عوام کی فتح“ اور جمہوریت کی فتح قرار دیا جارہا ہے۔ اس کے برعکس فلسطین میں عوام کی ٪۷۲ عوام نے آزادی سے ووٹ ڈال کر حماس کو فتح یاب کرایا مگر اس کی فتح امریکہ، مغرب اور اسرائیل کسی کے گلے سے نہیں اتر رہی ہے۔ اُس کے اوپر شرطیں لگائی جارہی ہیں۔ اُس کو ناکام کرنے کے لئے اُس کی مالی امداد روک دی گئی اور اسرائیل نے تواس کے ٹیکس کا وہ حصہ بھی ادا کرنے سے انکار کردیا جو اسے اوسلو معاہدہ کے تحت ملنی ضروری ہے۔ باقی سارا مغرب زور لگارہا ہے کہ مالی امداد بند کردیں گے۔ سوال یہ ہے کہ اگر عوام کی اکثریت کی رائے ہی جمہوریت میں فیصلہ کن ہے تو اسے فلسطین میں کیوں تسلیم نہیں کیا جارہا ہے؟ ہمارے ملک میں بھی وہ لوگ جو نریندر مودی کے فسادات کے بعد الیکشن میں زبردست فتح کو اُس کے لئے ریفرینڈم مان کر اسے تسلیم کررہے ہیں وہ بھی حماس کے مخالف بنے ہوئے ہیں۔ جبکہ گجرات میں ظلم ہوا تھا اور حماس میں ظلم اور ناجائز قبضہ سے نجات دلانے کی کوشش کررہی ہے اُس کے طریقہ کار پر ہی تو اختلاف ہے۔ مگر حماس کو اِن انتہائی اقدامات پر مجبور کرنے میں اس عالمی برادری کی مجرمانہ خاموشی کا بھی دخل ہے جو ۳۷ سالوں سے ظالم اور غاصب اسرائیل سے فلسطینی مملکت اور قبلہ اول مسجد اقصیٰ کو خالی نہیں کراپائی۔ حماس اسرائیل کے دو ٹکڑے نہیں کرنا چاہتی مگر ایل ٹی ٹی ای لنکا کے دو ٹکڑے کرنا چاہتی ہے اور حیرت انگیز بات یہ ہے کہ سال ۲۰۰۶/ کے پہلے ماہ تک دہشت گرد تنظیم کم سے کم یورپی یونین کی حدتک نہیں قرار پائی تھی۔

دوسری مثال اس نام نہاد جمہوریت پسندی کی وینزویلا ہے۔ وہاں پر بھاری اکثریت سے جیت کر صدر بنے ہیوگوشاویز کی امریکہ مخالف پالیسی کی وجہ سے امریکہ دن رات منتخب صدر اور حکومت کو کمزور کرنے کی شازشیں کررہا ہے۔ نوبت یہاں تک ہے کہ ہیوگوشاویز متعدد مواقع پر پریس کانفرنس میں یہ کہہ چکے ہیں کہ امریکہ مجھے ہلاک کرانا چاہتا ہے، اگر میری غیرطبعی موت ہوتی ہے تو اس کا ذمہ دار مسٹر بش ہوں گے۔ وینزویلا کے صدر نے اپنے دورئہ ہند میں وزیراعظم من موہن سنگھ کے سامنے پریس کانفرنس میں بھی یہی ڈر ظاہر کیا۔ (شاہ ٹائمس ۶/۳/۲۰۰۵/)

ایران میں صدارتی انتخاب ہوئے اعتدال پسند کہے جانے والے علی اکبر ہاشمی رفسنجانی اور قدامت پرست کہے جانے والے احمدی نژاد کے درمیان صاف اور کھلے مقابلہ میں احمدی نژاد کے فتح یاب ہوتے ہی مغرب کے اور خصوصاً بش کی پیشانی پر بل پڑ گئے۔ جبکہ اگر جمہوریت عوام کی رائے کے احترام کا نام ہے اور مسٹر بش اسی کے قیام کے لئے بیتاب ہیں تو عوام کے فیصلہ کو قبول کیوں نہیں کرتے؟

۱۹/فروری ۲۰۰۴/ کو امریکی ساحل پر مرکزی امریکی کریبیائی جزیرہ ”ہیتی“ کے منتخب صدر ارسٹائڈ کو امریکی سپاہیوں نے صدارتی رہائش گاہ سے نکال کر قریبی جزیرہ میں پہنچادیا اور اپنے منظور نظر سی آئی اے کے سابق ملازم گائی فلپ کو صدر بناکر امریکی فوجیں وہاں تعینات کردیں۔ ”ہیتی“ نشہ آور ادویہ کی اسمگلنگ کا اہم راستہ ہے ہر سال پچاس ٹن نشہ آور ادویہ یہاں سے اسمگل ہوتی ہے۔ یہ اربوں ڈالر کا کاروبار وہاں کے جرائم پیشہ افراد کی دلچسپی کی وجہ تھی۔ اور امریکی حکمراں ری پبلکن پارٹی کا ایک گروپ ان مجرموں کی مالی مدد کررہا تھا۔ اس گروپ کو ”اتحاد برائے جمہوریت“ کا خوبصورت نام دیاگیا تھا۔ صدام کی طرح ارسٹائڈ کو ہٹانا بھی بش کی ترجیحات میں تھا۔ حکومت میں آتے ہی بش نے IMF کی ۶۵۰ ملین ڈالر کی مدد رکوادی۔ اور عالمی بینک سے قرضہ کیلئے سخت شرائط متعین کردی گئیں۔ U$AID نے ”جمہوریت کے فروغ پروگرام“ کی آڑ میں سماج میں وہاں کام کیا جہاں سے صدر کی مخالفت ہوسکتی تھی۔ ارسٹائڈ خود بتاتے ہیں یہ ایک بغاوت تھی۔ میں صاف کہتا ہوں سفارت کاری کے بھیس میں دہشت گردی تھی۔ رات میں اچانک امریکی فوجی داخل ہوئے انھوں نے کہا راجدھانی میں ہرطرف باغی پھیلے ہوئے ہیں وہ آپ کو زندہ یا مردہ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ اگر ایک بھی گولی چل گئی تو بہت خون خرابہ ہوگا۔ خود امریکی سفیر نے ان سے استعفیٰ وصول کرکے انہیں جبراً جہاز میں بٹھاکر باہر کردیا۔ (امتیاز احمد فرنٹ لائن)

اس اقتباس سے جمہوریت کے نام نہاد، خودغرض علمبرداروں کے طریقہ کار کی بھی وضاحت ہوتی ہے، اسی طریقہ کار پر آج بھی شام اور ایران میں عمل ہورہا ہے۔ دوسرے ممالک کے باغیوں اور مجرمین کو پناہ دینا اِسی لئے اِن کا سب سے محبوب مشغلہ ہے۔ اپنے منظور نظر افراد کو مختلف مکر و شازشوں کے ذریعہ اقتدار میں لانا یا اقتدار میں بنائے رکھنے کی چند مثالیں اور بھی ہیں تاکہ ان کے مکروہ کھیل کا خوفناک چہرہ بھی سامنے آجائے۔

۲۰۰۰/ میں یوگوسلاویہ میں جب صدر میلوسووچ انتخاب جیت گئے تب مغربی ممالک نے اُس نتیجہ کو ہی ماننے سے انکار کردیا اور ووجوسلاؤ کوستانیکا نام کے وکیل کو اپنی حمایت اور تعاون کا کھلے عام اعلان کیا۔ عوام کو وارننگ دی گئی کہ اگر کوستانیکا صدر نہیں بنے تو یوگوسلاویہ کا بائیکاٹ کیا جائے گا۔ اور مالی امداد روک دی جائے گی۔ عاجز ہوکر صدر میلوسووچ کو اقتدار چھوڑنا پڑا۔ ۲۰۰۳/ میں ایسا نظارہ روسی ری پبلک جارجیا میں دوہرایا گیا۔ ۲/نومبر ۲۰۰۳/ میں پارلیمانی انتخاب کے نتیجہ میں جیتنے والے ایڈورڈشورڈ نازے کو جبراً ہٹایا گیا اور تبلیسی میں امریکہ نواز صدر اقتدار پر قابض ہوگیا۔ ایسا ہی کارنامہ جمہوریت کے نام پر ۲۶/دسمبر ۲۰۰۵/ کو یوکرین میں انجام دیاگیا۔ ڈیڑھ ماہ پہلے ہوئے الیکشن کے نتائج اس طرح الٹ دئیے گئے کہ مغرب نواز سرمایہ دار وکٹر یشچنکو کو ٪۵۲ اور وزیر اعظم یان کووچ کو ٪۴۴ ووٹ کا اعلان کیاگیا۔ پھر کیا تھا مغربی ممالک میں جشن کا ماحول بن گیا سبھی جگہ خوشیاں ہی خوشیاں چاہے واشنگٹن ہو یا لندن ہر جگہ سے مبارکباد کا تانتا لگ گیا پریس اور چینلوں سے یوکرین کے عوام کو مبارک باد دی جانے لگی کیونکہ یوکرین میں جمہوریت آگئی ہے۔

سوال اٹھتا ہے کہ جمہوریت پر مغرب کی رائے کیا ہے؟ جمہوریت کی تعریف کیا ہے؟ کسی ملک کے انتخاب میں مداخلت کرنا جمہوریت ہے یا اپنی پسند کے امیدوار کے لئے ڈالر اور یورو کا خزانہ لٹانا جمہوریت ہے؟ کیا یہ یوکرین کے عوام کی توہین نہیں ہے کہ ان کے فیصلہ کے خلاف دوسرے ممالک ہائے توبہ مچائیں؟ (جتندر کمار سنگھ راشٹریہ سہارا اردو ۱۵/۱/۲۰۰۵/)

وینزویلا کے امریکہ مخالف صدر سے چھٹکارا پانے کے لئے امریکہ نے کیوبا کی طرح وہاں بھی روزانہ نئی شازشوں کا سلسلہ شروع کررکھا ہے۔ وینزویلا کے دستور میں ہے کہ صدر کی مدتِ کار پوری ہونے سے قبل انہیں واپس بلایا جاسکتا ہے اس کے لئے وہاں رائے شماری کا نظم کیاگیا ہے۔اگست میں وہاں رائے شماری کرائی گئی شاویز کو ۸۵ لاکھ لوگوں میں سے ٪58.25 لوگوں نے ووٹ دئیے اور تمام مخالفت میں ٪41.75 ووٹ پڑے۔ اپنا داؤ الٹا پڑتا دیکھ کر امریکہ نے دھاندلی کی شکایت کی لیکن اس کا داؤ وہیں الٹا پڑگیا جب سابق صدر جمی کارٹر، امریکی ریاستوں کے سکریٹری جنرل گووریا جو وہاں بین الاقوامی مشاہد کی شکل میں موجود تھے انھوں نے اس چناؤ کو صاف ستھرا قرار دیا۔ (سریندرکمار ورما۔ شاہ ٹائمس ۲۰/۱/۲۰۰۵/)

جہاں ان مغربی ممالک کے زرخرید غلام جیت جاتے ہیں چاہے وہ جتنے بھی آمرانہ طریقہ استعمال کریں جیسے مصر و ازبکستان وہاں پر شاہدین کی گڑبڑی کی رپورٹ پر دھیان نہیں دیا جاتا۔ برما میں سالوں سے نوبل انعام یافتہ خاتون جمہوریت کے لئے جنگ لڑ رہی ہیں اور اپنے گھر میں نظر بند ہیں۔ مگر تمام مغربی ممالک کے اِس فوجی آمریت والے ملک سے اچھے روابط ہیں یہاں تک کہ ہتھیاروں کی سپلائی بھی جاری ہے۔ آج تک اپیلیں ہی ہوتی رہتی ہیں کہ جمہوریت بحال کرو مگر اس فوجی ڈکٹیٹر کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی۔ جو دھمکیاں شام اور ایران کو دی جاتی ہیں وہ دھمکیاں رنگون اور ازبکستان کو نہیں دی جاتیں۔ دوسرے ممالک کے اندرونی معاملات میں امریکہ و بڑی طاقتیں کتنی مداخلت کرتی ہیں کتنا سرمایہ صرف کرتی ہیں کتنے سیاستدانوں کو خریدتی ہیں یہ سب ڈھکی چھپی بات نہیں ہے حال ہی میں شائع شدہ دوکتابوں نے روس اور CIA دونوں کی کرتوتوں پر روشنی ڈالی ہے جو وہ ہمارے ملک بھارت میں کرتی رہی ہیں۔ عوامی حکومتوں کو شازشوں اور ڈالر کے ذریعہ بدلنا ہی جمہوریت ہے کیا؟ طرفہ تماشہ یہ کہ جو آج ڈکٹیٹر کہلاتا ہے اگر وہ امریکہ و مغرب کی غلامی شروع کردے جیسے ڈکٹیٹر مشرف تو وہ قابل قبول ہوجاتا ہے۔ ورنہ اس سے بات بھی کرنی پسند نہیں کرتے۔ نیپال میں جمہوریت نواز تحریک کو کچلنے کے لئے اور شاہ کی حمایت میں یہ گھڑیالی آنسو بہانے والے آگے رہتے ہیں۔ نتیجہ میں ہزاروں لوگ مارے جاچکے ہیں یا جیلوں میں ہیں۔ ماضی قریب میں جس طرح الجزائر الیکشن میں اسلام پسند اسلامک سالویشن فرنٹ کو ۲۰ سال پہلے حکومت میں آنے سے روک کر فوجی حکمرانوں کو فرانس اور مغرب کی مرضی سے مسلط کیاگیا اس کے نتیجہ میں وہاں آج تک ایک لاکھ سے زیادہ لوگ مارے جاچکے ہیں؟ ان لاکھوں انسانی جانوں کے ضیاع اور یتیموں، بیواؤں کی مصیبتوں کا سہرا کن درندوں کے سر پر باندھا جائے گا؟ دوسرے ممالک کے غداروں اور رشوت خور حکمرانوں اور باغیوں الطاف حسین، جلال طالبانی، سعودی منحرفین، احمد شلابی، بے نظیر بھٹو،نواز شریف، خالصتانی علیحدگی پسندوں کو اپنے یہاں پناہ کیوں دیتے ہیں؟ اگر وہ عوام میں مقبول ہیں تو انہیں اپنے ملک میں آنے سے کیوں ڈرہے؟ ایران میں حکومت کے باغیوں، کردوں ، مجاہدین خلق کو مغرب مدد کیوں دیتا ہے؟ ایران کے باغیوں کو ۸۵ ملین ڈالر امریکہ کیوں دے رہا ہے؟ حماس کے خلاف محمود عباس کو ۴۰ ملین ڈالر دے کر الیکشن جتانے کی کوشش ہی جمہوریت ہے کیا؟

$ $ $

______________________________

ماہنامہ دارالعلوم ‏، شمارہ5، جلد: 90 ‏،ربیع الثانی1427 ہجری مطابق مئی2006ء